یہ مہینہ
اگست کا ہے، اس میں ہم ہندوستان کی آزادی کی ساٹھویں
سال گرہ منارہے ہیں، لیکن ایسے موقعوں پر جس طرح سے ہندوستان کی
تاریخ آزادی ہم کو بتائی اور سنائی جاتی ہے، اس میں
بہت سے قابل قدر ابواب چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ یہ قیمتی
صفحات ہیں جن کو ہم قصداً پس پشت ڈال رہے ہیں اور اگر اس سلسلے کی
کچھ باتیں منظر عام پر آتی بھی ہیں تو وہ گرد آلود ہوتی
ہیں اور تنگ نظری کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
۱۸۵۷/ کی جنگ آزادی جس کو انگریزوں نے
غدر کا نام دیا ہے، ناکام ہوگئی تو ہمارے دانشوروں نے یہ ذہن
بنایا کہ ابھی ہمارے پاس اس قدر طاقت نہیں کہ ہم میدان
جنگ میں کامیابی حاصل کرسکیں چنانچہ میدان جنگ سے
قبل اس لڑائی کو ذہنوں کے ذریعے لڑنے کی خاطر ۳۰/مئی
۱۸۶۶/ کو دلی کے شمال میں ڈیڑھ سو کلومیٹر
کے فاصلے پر دیوبند میں اسلامی تعلیمات اور دینیات
کا ایک مرکز دارالعلوم کے نام سے قایم کیاگیا۔
برطانیہ نے چوں کہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا، اس لئے قدرتی
طور پر ان کا غصہ علمائے کرام اور مسلمانوں کے خلاف تھا اور انھوں نے ہزارہا
مسلمانوں کو پھانسی کے تختہ پر چڑھایا۔ یہ لڑائی
ہندوؤں اور مسلمانوں نے شانہ بشانہ لڑی۔
۱۸۷۷/ میں دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم
شیخ الہند مولانا محمودحسن نے ایک جماعت ثمرات التربیة کے نام
سے قائم کی اس جماعت کے ذریعے ایسے نوجوان تیار کئے گئے
جو برطانوی سپاہیوں سے میدان جنگ میں دو دوہاتھ کرسکیں۔
یہ تحریک تقریباً ۳۰ برس تک چلتی رہی۔
۱۸۸۰/ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کا
انتقال ہوا اوراس کے بعد یہ تحریک آگے نہ بڑھ سکی اور اس سے دست
کش ہونا پڑا۔ ۱۹۰۹/ میں شیخ الہند
مولانا محمودحسن نے جمعیة الانصار نامی جماعت قایم کی۔
مولانا عبیداللہ سندھی کو دیوبند بلایاگیا تاکہ اس
نئی تنظیم کے دفتری امور کی ذمہ داری ان کے سپرد
کردی جائے۔ ۱۹۱۱/ میں دارالعلوم دیوبند
میں سالانہ جلسہ ہوا جس میں پہلی بار جمعیة الانصار کا
تعارف کرایاگیا۔ اس موقع پر غیرمنقسم ہندوستان کے
۳۰ ہزار سے زیادہ متبحر علماء (ان میں باہر ملکوں کے کچھ
علماء بھی شامل تھے) کے سامنے جمعیة نے اپنے قیام کی
وجوہات اور اغراض ومقاصد بیان کئے۔ اس موقع پر ملک کو آزاد کرانے اور
انگریزوں کے ذریعے ملک کے استحصال کرنے کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کیاگیا۔
جمعیة الانصار نے اپریل ۱۹۱۱/ میں مراد
آباد میں ریلی کی جس میں علی گڑھ، ندوة
العلماء لکھنوٴ اور دیوبند کے علماء اور عوام شریک ہوئے۔
۱۹۱۲/ اور ۱۹۱۳/ میں بھی
جمعیة نے بڑے پیمانے پر عوامی اجتماعات کئے ان اجتماعات میں
میرٹھ اور شملہ کے ہزارہا افراد نے شرکت کی۔ ان اجتماعات میں
عوامی شرکت کو دیکھ کر انگریزوں کی سرکار حیران و
پریشان ہوگئی اور اس کے بعد انگریزوں نے ان تحریکات کے
سرچشمہ یعنی دارالعلوم دیوبند کو ہی ختم کرنے کاپلان بنایا۔
شیخ الہند نے اس جماعت کے سرکردہ افراد سے کہا کہ وہ اس جماعت سے خود کو الگ
کرلیں تاکہ دارالعلوم کو پچایا جاسکے۔
۱۹۱۳/ میں جمعیة الانصار پر پابندی لگ
گئی اوراس کے بعد مجاہدین آزادی نے دلی میں ایک
نئی تنظیم بنائی جس کا نام تھا نظارة المعارف۔ اس میں
شیخ الہند مولانا محمودحسن اور مولانا عبید اللہ سندھی پیش
پیش تھے۔ اس جماعت نے ملک کو آزاد کرانے کو ہی اپنا نصب العین
قرار دیا۔ دلی میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا
ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی اور شیخ الہند خفیہ
طور پر آپس میں ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔
۱۹۱۴/ میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی اور مجاہدین آزادی نے اپنا
طریق کار بدل ڈالا۔ انھوں نے اندرون ملک آزادی سے متعلق سرگرمیوں
کو برطرف کرتے ہوئے جرمنی کی مدد کرنا شروع کی۔ آزادی
کے فدائیین نے اس جنگ کو ایک ایسا اچھا موقع سمجھا جبکہ
برطانوی مفادات کو نقصان پہنچایا جاسکتا تھا۔ برطانوی
افواج کے خلاف مسلح جنگ کا پلان بنایاگیا۔ حاجی صاحب ترنگ
زئی اور مولانا سیف الرحمن کابلی کو فیلڈ کمانڈر بنایا
گیا۔ یہ دونوں حضرات شیخ الہند کی رضاکار جماعت کے
ہی آدمی تھے۔ ان کا ہیڈکوارٹر باجور میں زِلفی
کا مقام تھا۔ باجور قبائیلی خود مختار علاقے بنام یاغستان
کی راجدھانی تھی۔ شیخ الہند نے اپنے نمایندے
مولانا عبیداللہ سندھی کو کابل بھیجا اور خود سعودی عرب
کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس طرح سے آپ نے اسلامی ملکوں کو ہندوستان کی
آزادی کے سلسلے میں اپنا ہم نوا بنانا چاہا۔ ملک کی آزادی
کے لئے پوری دنیا میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ضروری تھا یہ
کوشش ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے کئی بار کئی گئی
۱۹۱۵/ میں جب شیخ الہند نے کابل میں
جلاوطن حکومت قایم کی تو یہ پیغام دیا کہ ہندوستان
کی آزادی ہندو اور مسلمان مل کر ہی حاصل کرسکتے ہیں،
چنانچہ اس حکومت کا پہلا صدر راجہ مہندر پرتاپ کو بنایاگیا اور برکت
اللہ بھوپالی نے پورے یوروپ میں گھوم کر ہندوستان کی آزادی
کے مطالبہ کو سب کے سامنے رکھا۔
شیخ الہند
۹/اکتوبر ۱۹۱۵/ کو مکہ شریف پہنچے اور ترکی
کے گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی، انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف ان
کو امداد دینا چاہی۔ یہی وہ طریقہ کار تھا
جسے بعد میں سبھاش چندربوس نے اپنایا اور انھوں نے بھی ٹوکیو
میں رہتے ہوئے انڈین نیشنل آرمی قایم کی جس
کے ایک سرکردہ رکن شاہنواز تھے اور جو آزاد ہندوستان میں وزیر
زراعت بنے تھے۔ شیخ الہند کی ریشمی رومال کی
تحریک تاریخی حیثیت رکھتی ہے جس کا ذکر مشہور
مورخ ڈاکٹر تارا چند اور ایشوری پرشاد نے اپنی تاریخ کی
کتابوں میں کیا ہے۔ اس برطانیہ مخالف تحریک میں
۲۲۲ سرکردہ علماء کی گرفتاری عمل میں آئی
تھی۔ ۲۳/صفر ۱۳۳۵ھ کو مکہ میں
شیخ الہند اور ان کے رفقائے کار مولانا وحیداحمد، مولانا عزیز
گل، حکیم سید نصرت حسین، مولانا سید حسین احمد مدنی
کو گرفتار کرلیاگیا اور ان کو براستہ قاہرہ مالٹا کی جیل
میں نظربند کرلیاگیا۔ ۲۹/ربیع الثانی
۱۳۳۵ھ کو بذریعہ بحری جہاز ان کو مالٹا بھیجا
گیا گویا کہ یہ لوگ ۲۱/فروری
۱۹۱۷/ کو بھیجے گئے اور تین سال چار ماہ جیل
میں رہے یہ لوگ ۸/جون ۱۹۲۰/ کو رہا
ہوکر بمبئی آئے۔ البتہ مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا
محمدمیاں منصور انصاری نے اور کئی برس جیل میں
گذارے۔ ۱۸۸۵/ میں انڈین نیشنل
کانگریس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو ملک
کی آزادی کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر لایا
جاسکے۔
مختصراً یہ
کہ ہندوستان کی تاریخ آزادی ہندوؤں اور مسلمانوں کی
مشترکہ خدمات سے بھری پڑی ہے تاہم جب کبھی کوئی موقع آتا
ہے تو اس میں صرف ایک طبقہ کو ہی دکھایا جاتا ہے اور
مسلمانوں کی خدمات کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جس سے
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فضا پر خراب اثر پڑرہا ہے۔ ضرورت اس بات کی
ہے کہ ہمارے مدارس اور اسکولوں، نیز کالجوں میں تاریخ صحیح
صحیح تناظر میں عوام کے سامنے آئے تاکہ سب لوگ کندھے سے کندھا ملاکر
ملک و قوم کی خدمت انجام دے سکیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 91 ، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء